یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ افغانستان گزشتہ چالیس سالوں سے بدامنی اور جنگ و جدل سے دوچار ہے۔ لیکن اس میں تیزی اس وقت آئی جب امریکہ نے دہشتگردی کا بہانہ بنا کر افغانستان پر نیٹو افواج کی مدد سے 2001میں چڑھائی کر دی۔ اس کے بعد امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تورا بورا کےپہاڑوں پر ڈیزی کٹر اور دوسرے خطرناک قسم کی ہتھیاروں سے بمباری کر دی۔ اس کے بعد بھارت کو بھی موقع ملا کہ وہ افغانستان میں اپنے اڈے قائم کردے ۔
اور ہوا بھی بلکل اسی طرح۔ بھارت نے افغانستان کے طول و عرض میں اور حصوصی طور پر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے نام نہاد قونسلیٹ خانے کھول کر پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی شروع کر دی۔ پاکستان نے وقتًاپوقتاً بیرونی دنیا کو یادہانی کرادی تھی۔ جب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا تو پاکستان کے سیکورٹی ایجنسیوں نے بھی دن رات ایک کرکے اس کے خلاف کام شروع کیا۔ اور بلآخر بلوچستان میں را کا ایک خطرناک اور بڑا نیٹ ورک پکڑاگیا۔
ابھی حال ہی میں جب امریکہ نے افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرکے روانہ ہوئی تو بھارت اور اسکی خفیہ ایجسیان بھی وہاں پر رکنے کے لئے تیار نہ تھی۔ اور حصوصی طور پر جب طالبان کی کاراوائوں میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی۔ ابھی دو یا تین دن کی بات ہے جب طالبان نے پاکستان سے متصل افغانستان کے سرحدی علاقے سپین بولدک پر قبضہ کرلیاتو وہاں سے اس نے 3 ارب مالیت کی پاکستان کرنسی برآمد کردی۔
اور بعض اطلاعات کے مطابق یہ وہی کرنسی ہے جو راکے ایجنٹ جلدی میں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے اور بھاگتے بھاگتے اپنے پیچے چھوڑی تھی ۔ مزید یہ کہ اتنی بڑی رقم را کے ایجنٹ پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے کاروائیوں میں استعمال کرتی تھی۔ کیونکہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ اتنی بڑی رقم افغان سیکورٹی اداروں کے پاس کہا سے آئی اور کس نے دی تھی اور کس مقصد کے لئے دی تھی۔
افغانستان کے سرحدی علاقے سے 3ارب پاکستان کرنسی طالبان کے ہاتھوں لگنا بھارتی دہشتگردی کے واضح ثبوت ہے۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان نے جن جن دعٰوں کا اظہار کیا تھا وہ بلکل سچ ثابت ہو رہے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ افغان طالبان جس تیزی کے ساتھ افغانستان کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہے اس سے تو یہی لگتاہے کہ طالبان ابھی مزاکرات کے موڈ میں نہیں ہے اور وہ دوسرے علاقوں بشمول کابل کو بھی جلداور بزور طاقت فتح کرلیں گے۔ اور ہو سکتاہے وہاں پر اسی طرح کی اور ٹھوس ثبوت طالبان کے ہاتھوں لگے۔
افغانستان میں حا لیہ بدامنی اور خانہ جنگی کی نتیجے میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاک افغان بارڈر پر پاکستان آنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں ضروری کاراوائیاں اور پہلے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہو سکتاہے کہ ان مہاجرین میں ایک بڑی تعداد را کے ایجنٹوں کی ہو۔ جو پاکستان میں افغان مہاجرین کی شکل میں دہشتگردی اور بدامنی پھیلانے کے لئے بالکل تیار کڑے ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی حکومت زمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے افغانستان کے بارے میں ایک واضح پالیسی اپنائے۔ کیونکہ حکومت پاکستان کی طرف سے مزید ابہام اور تاخیر پاکستانی معاشرے میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان کے حکومتی زمہ زداروں کو چاہیے کہ اس ضمن میں مزید دیر نہ لگائے۔ کیونکہ حکومت اس سلسلے میں جتنی دیر لگائے گی اتنی دیر میں افغانستان میں موجود را کے ایجنٹوں کو مزید وقت ملے گا کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کاراوائیاں شروع کرے۔
نوٹ: اگرآپ بھی ہمارے لئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں اور اپنےرائےکا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آج اور ابھی اپنا قلم اٹھائیے اور کم از کم 500 سے 1،000 الفاظ پر مشتمل اپنا مضمون ، مکمل نام، تصویر، پتہ، موبائل نمبر ، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈی کے ساتھ ہمیں اس ای میل ([email protected]) پر بھیج دیجئے۔
Menu