کیا ہم آزاد ہیں؟؟ – ثانیہ گُلزار

آزادی کا مطلب کیا ہے؟؟ کیا یہ دیکھائی دیتی ہے؟؟ کہ جسے دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کر پائیں کے ہم ایک آزاد ریاست کے شہری کہلاتے ہیں ۔ اگر یہ دیکھائی دیتی ہے تو پھر مجھے کیوں نہیں نظر آتی؟؟ کیوں اس آزادی میں آزاد ہونے کا نہ تو احساس باقی رہا، نہ ہی کسی کے چہروں پہ خوشی کی کوئی رمق رہی، ایسا کیوں ہے اس بار؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ایک مُلک کے آئین میں لکھا گیا ہے جسے ایک نہم جماعت کا طالبِ علم بہت زوروشور سے پڑھتا ہے کہ ؛ ہم ایک آزاد ریاست ہیں، مُلک میں آئین کی بالادستی قائم رہے گی اور کوئی کام بھی اسلام کے اُصولوں کے منافی نہیں کیا جائے گا۔

اور 1973 کے آئین کے مطابق ہر شہری آزادیِ اظہار راۓ کا حق رکھتا ہے، تو پھر کیوں اُسکی زُباں میں تالے لگا دیئے جاتی ہیں؟؟ جب بتایا گیا تھا کے مُلک کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے نقل و حرکت کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر اب ایسا ہوتا ہوا نظر کیوں نہیں آتا ؟ یہ جو آئین کی شقیں ہیں نہ یہ بہت ہی مشکل سے تقریباً ہر طالبِ علم کویاد کرنا پڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیوں؟؟ تاںکے اسکو پتہ ہو کے وہ ایک اسلامی یاست کا شہری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پر اب سے کُچھ سال قبل تک یہیں سوچ تھی کہ ہاں یہ سب ٹھیک تھا جو بھی ہم سب پاک اسٹڈیز میں اب تک پڑھتے رہے تھے ۔۔۔۔۔ اه! افسوس سد افسوس کے ہم سب کتنے ہی بیوقوف تھے اب تک ہی جو خود کو آزاد، سب سے الگ سمجھتے ہوئے خوشی سمیٹے نہیں سمٹتی تھی۔

اور آج یہ دکھ ہے کہ ہم خود کو آزاد کہنے والے تو سراسر خسارہ میں رہے، کیوں کے نہ ہی ہم دماغی طور پہ پوری طرح آزاد ہو سکے ۔۔۔۔۔ کہ ہم عوام اپنے طور پر خود اِس مُلک کی بقاء اور ترقی کے لئے کوئی فیصلہ کر پاتے اور جِس کو اپنے لیے، مُلک کے لئے، بہتر سمجھتے اسکو ہی اپنا نمائندہ یہ لیڈر بنالیتے۔۔۔۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔۔ یہ حق ہے تو سہی ہمارے پاس پر اب استعمال نہیں ہوسکتا کیوں؟؟ کیوں کے ہم آزاد ہے نہ اب اسےلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ در حقیقت تو ہم غلام تھے اور غلام ہی رہ گئے۔

یہاں اِک نہایت ہی عاجزانہ سوال ہے، کہ وہ مُلک جس کے لیے لوگ جان ہتھیلی پہ رکھے ہوئے ہوتے تھے، اب کیسے اسی اپنے پیارے وطن کو کیوں چھوڑ کر جاتے جا رہے ہیں؟؟؟ پر خیر جو جھٹلائے نہیں جھوٹتی وہ حقیقت کبھی نہیں چھپائی جا سکتی نہ قوم کے سامنے نہ ہی پوری دنیا کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔ اب تو دعا ہے بس کے اللّٰہ ہمارے مُلک کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے۔
آ مین!

اہم نوٹ: مردان ٹائمز اور اسکی پالیسی کا اس بلاگر کی سوچ اور اس کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
اگر آپ بھی مردان ٹائمز کے لئے اُردو میں بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو انتظار کئے بغیر آج ہی قلم اُتھائیے اور 1000 سے 1،200 الفاظ پر مشتمل اپنی خود ساختہ تحریر اپنے مکمل نام، تصویر، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر اکاونٹس اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ابھی ای میل کر دیجیے. ہم آپ کے تعاون کے شکرگزار ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

اسی طرح مزید خبریں