آٹو گراف – نوید شمائل

قصہ ہے عہدِ شباب کا جب ہم گرانڈیل توند کے مالک تھے۔ ازراہِ تفنن دوست احباب پٹھان بھی کہتے تھے۔ ہفتہ کو سکول سے تدریسی فرائض نپٹا کر اکثر لاہور کا رخ کیا جاتا۔ چنانچہ اُس ہفتے کو تدریسی وقفہ (بریک) کے دوران ہی لاہور سے ہوٹلنگ اور تھیٹر ڈرامے کا پروگرام بن گیا۔ گھر والوں کو بتا کر صاحبِ کار دوست کے ہمراہ لاہور روانہ ہوگئے۔
کھانا تناول فرمانے کے بعد ہم نے تھیٹر کی طرف رختِ سفر باندھا۔ خلافِ معمول الحمرا آرٹس کونسل میں قبل از وقت پہنچنے پر ٹکٹ خریدیں اور آرٹس کونسل کے دیگر حصوں کی مٹرگشت میں محو ہوگئے۔ یوں ہی چہل قدمی کے دوران کھلے صحن کے وسط میں محفلِ موسیقی بامِ عروج پر ملی۔
"مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے” کے مصداق ہم بھی چپکے سے وہاں ہو لیے۔ صغر سنی سے ہی اداکاروں اور گلوکاروں کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ بزمِ ساز و صدا کی داہنی جانب ایک جھمگٹا نظر آیا۔ متجسس ہو کر وہاں پائے رفتن رکھے۔ ایک معروف گلوکارہ جو نہایت خوبرو تھیں, آٹو گراف اور مختصر انٹرویوز دینے میں مشغول تھیں۔ ہم ٹھہرے جبلی بزدل ! چناں چہ آٹو گراف لینے کی بجائے محض سامانِ چشمِ تسکین پر اکتفا کیا۔ اسی اثناء میں گلوکارہ کی سرسری نظر ہم پر بھی پڑی۔ ہم نے اسے حُسنِ ظن سے تعبیر کیا مگر یار دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ آپ کو ستائشانہ انداز سے دیکھ رہی ہیں۔ جاؤ اور آٹو گراف لے کر آؤ۔ بے وقوف تو تھے (اس کا ثبوت یہ کہ ہم شادی شدہ ہیں۔) مگر اتنے بھی نہیں کہ ہم ان کی باتوں میں آ جاتے۔ لیکن جب مغنیہ کی تیکھی نظریں بار بار خود پر طواف کرتی نظر آئیں تو بلاتردد اُس حسینہ مہ جبینہ کے پاس جا پہنچے۔
” جی کہیے !” خواب آگیں لہجے میں دراز پلکیں اٹھا کر اُس نے پوچھا تو ہم گھگھیا گئے۔
"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔ آٹو گراف ” الفاظ بڑی مشکل حلق سے نکلے۔
” کس پر چاہیے؟” سوال کیا تھا , آبشار کا بہتا شفاف پانی تھا۔
اور ہم اس قدر سادہ لوح کے کاغذ پنسل ساتھ لے جانے بھول گئے تھے۔ چناں چہ بھولپن کے نقش و نگار چہرے پر منقش کرتے ہوئے کہا, ” جی ! وہ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ہے۔”
وہ دھیرے مسکرائی۔ لگا جیسے چاند نور کے بستر میں انگڑائی لے رہا ہو۔ اپنے بیگ سے پرسنل ںزنس کارڈ نکالا جس پر نجی استعمال ہونے والا نمبر بھی جھلملا رہا تھا۔ گویا ہفتِ اقلیم ہاتھ لگنے والا تھا۔ کارڈ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں لے کر گلاب کی طرح مخروطی انگلیوں والا دستِ حنا ہماری طرف بڑھایا اور استفسار کیا کہ , ” پن ۔ ۔ ۔ !”
ہم نے بحرِ ندامت میں ایک گہرا غوطہ لگایا اور بھونڈی سی مسکراہٹ سے کہا, "وہ بھی نہیں ہے۔”
ایمان شکن تبسم کی بجلیاں گراتے ہوئے اسں نے ہینڈ بیگ میں سے سرخی نکالی۔ ہمارا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے نیم گلابی لبوں کو سرخی سے سرخ آتشی کیا۔ ہماری ٹانگیں تانبورے کی تاروں طرح بجنے لگیں۔ پھر نہایت فراخ انداز میں سرخ ہونٹوں کی مُہر ثبت کر دی۔
آہ ! عہدِ حُر کی یہ خاص یاد شادی تک دل سے لگائی رکھی۔ آٹو گراف نہیں, ہارٹ گراف تھا جو قلب کے نہال خانے پرتو منقش ہے مگر ظاہراً فنا ہوچکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

اسی طرح مزید خبریں