آؤ خوشیاں بکھیریں – (دوسرا حصہ)، تحریر: جہاں گرد

نومبر کی 23 تاریخ ہے اور میں آفس میں صبح سے ایسی عجیب کشمکش میں مبتلا ہوں کہ جیسے میری کوئی بہت قیمتی چیز گُم ہو گئی ہے یا پھر دنیا کی سے خوب صورت یعنی میری من پسند لڑکی میری زندگی سے چلی گئی ہے۔ یہ دکھ دنیا کے تمام دکھوں سے بڑھ کر ہے۔ خیر کسی طرح میں نے دن گزار لیا اور سہ پہر ساڑھے تین بجے اسلام آباد سے نکلا تو ایبٹ آباد کو ٹچ کرتے ہوئے مانسہرہ پہنچ گیا۔ شام کے اندھیرے اتنے لمبے ہو گئے تھے کہ اپنے سائے سے ہی ڈر لگ رہا تھا۔ یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ اِس سے ھفتہ دس دن پہلے میں نے اپنے Crime Partners یعنی اپنے تین دوستوں کو کافی منانے کی کوشش کی کہ کسی طرح ہمارا ٹوور ہو جائے۔ تینوں نہ سہی ایک آدھ تو میرے ساتھ چلا جائے اور میری تنہائی کچھ کم ہو لیکن As Usual ایک کو موت پڑ رہی تھی۔ دوسرے کی نانی بیمار تھی جو کہ کسی بھی وقت۔۔۔ جبکہ تیسرے کو بیگم صاحبہ کی طرف سے پروموشن سوری Permission نہیں مل رہی تھی۔ چلیں اب اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔

رات کے آٹھ بجے ہیں اور میں بالاکوٹ شہر میں ہوں۔ یہاں بڑے مزے کا سین Create ہوا۔ دورانِ سفر میں ہوٹل کے کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہوں البتہ چائے کے ساتھ کیک یا فروٹ کیک میرا پسندیدہ ہے۔ چائے کا سامان میری گاڑی میں ہی پڑا ہوتا ہے لیکن اسلام آباد سے کیک لینا بھول گیا۔ بالاکوٹ شہر میں تقریباً تمام بیکریوں سے فروٹ کیک کی مؤدبانہ درخواست کی لیکن پانچوں بیکریوں نے میری درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ سوری ختم ہو گئے ہیں۔ مجبوراً ایک تِکے والے کے پاس گیا اور ایک گرم روٹی کے ساتھ دو سیخ آرڈر کر دئے۔ اِس دوران رات کے نو بج چکے تھے اور ہر طرف اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا۔



تِکے والے سے سوال کیا کہ اِس وقت ناران تک کوئی گاڑی جاتی ہے۔۔۔؟ ساتھ ہی کھڑے ایک جیپ والے نے جواب دیا کہ رات کے نو بجے تو گاڑی نہیں ملے گی۔ بہتر ہے آپ یہیں پہ مناسب سا کمرہ لے کر رات گزاریں اور صبح چلے جائیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس اپنی گاڑی ہے، وہ دیکھیں۔ گاڑیوں کا اِس لئے پوچھ رہا کہ میں اکیلا ہوں اور اِس وقت مجھے ناران جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے۔ آگے پیچھے کسی گاڑی کی روشنی نظر آئے گی تو میں تسلی سے ناران پہنچ جاؤں گا۔ کہنے لگا کہ آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ بھلا اِس وقت بھی کوئی ناران گیا ہے۔۔۔؟ اگر ٹائر پنکچر ہو گیا یا کوئی اور مسئلہ ہو گیا تو۔۔۔؟ میں نے کہا کہ ٹائر پنکچر سے ڈر نہیں لگتا صاحب۔۔۔ چور، ڈاکو، لٹیرے اور اُچکے سے ڈر لگتا ہے۔ کہنے لگا کہ چور ڈاکو کی فکر نہ کرو، اگر آپ کی گاڑی قابلِ بھروسہ ہے۔

اللہ کا نام لے کر نکل تو پڑا لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ مجھے اکیلے نہیں آنا چاہئے تھا۔ اوپر سے تنہائی نے بھی ستانا شروع کر دیا۔ اب اکیلے میں بندہ نصرت فتح علی خان کو کتنا سنے۔۔۔؟ ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جب پھنس گئے تو پھر کیا ڈرنا۔ ایک دوسری کہاوت ہے کہ جس بلا سے خلاصی نہ ہو اُسے دن میں تین بار سلام کرنا چاہئے۔ خود کو تسلی دی کہ بیٹا اب آ گئے ہو تو پیچھے نہیں مُڑنا۔ پارس میں ایک کھوکھے والے نے ٹین کے ڈبے میں آگ جلائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر آگ کے قریب بیٹھا تو اُس ٹھنڈ میں آگ کی حِدت نے خون گرما دیا اور میں ایک بار پھر روانہ ہو گیا۔

کاغان تک تو کوئی ڈر نہیں لگا لیکن کاغان سے آگے جب ناران کے دیوہیکل پہاڑوں سے واسطہ پڑا۔۔۔ لمبے لمبے درختوں کے جُھنڈ دیکھے۔۔۔ ساتھ ہی نیچے بہتا، ٹھاٹھے مارتا ہوا دریائے کنہار کا شور جب کانوں کے پردوں سے ٹکرایا تو رات کو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اب تو جن، چڑیل، چور، ڈاکو حتٰی کہ عزرائیل کا خوف بھی نمایاں ہو چکا تھا اور سردی کی وجہ سے ہاتھ پاؤں اور چہرہ بھی کڑ کڑ۔۔۔۔۔ کڑ کڑ کانپ رہا تھا۔ خیر میں نے کسی طرح ناران پہنچنا تھا لہٰذا رکنا مناسب نہیں لگا۔ اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ تو ہی مددگار ہے۔ تیرا ہی آسرا ہے۔ پلک جھپکنے میں پیچھے سے دو GLI کاروں نے مجھے یوں کراس کیا جیسے آندھی چلی ہو۔ تیسرے نے جب مجھے کراس کرنا چاہا تو میں نے اُسے اگے ہی نہیں ہونے دیا۔ وہ مجھے بار بار لائٹ اور ھارن دے رہا تھا اور میں دل میں بڑبڑا رہا تھا کہ ہونہہ۔۔۔ اِس کو بھی راستہ دے دیا تو مجھے کسی جن چڑیل نے کھا جانا ہے۔



اُس کار میں بیٹھے سارے اللہ والے تھے۔ ایک جگہ جب مجھ سے آگے نکل رہے تھے تو مجھے روک کر پوچھا کہ شاید آپ کو ڈر لگ رہا ہے اِس لئے ہمیں راستہ نہیں دے رہے۔ میں نے کہا کہ ڈر کے ساتھ کچھ اور بھی لگ رہا ہے۔ کہنے لگے کہ آرام آرام سے چلتے جاؤ، ہم آپ کے پیچھے ہی ہیں۔ ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ میں نے بقایا سفر اتنے مزے سے کیا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ ناران پہنچ کر اُن کا شکریہ ادا کیا اور اُن کو چائے کی آفر بھی کی مگر انہوں نے کہا کہ ہم پانچ ہیں اور تم ایک۔ لہٰذا چائے ہمیں پلانی ہے۔ اُن کے ساتھ مزے کی چائے پی اور ایک مناسب سے ہوٹل میں درمیانہ کمرہ لے کر سو گیا کیونکہ رات کے 12 بج چکے تھے۔

اگلی صبح ایک ھوٹل میں دبا کے ناشتہ کیا اور گاڑی کو ٹھکانے لگا کر جھیل سیف الملوک کی 10 کلومیٹر ھائیک شروع کر دی۔ بلاشبہ وہ 10 کلومیٹر بڑے تھکا دینے والے تھے لیکن جب جھیل پہنچ کر یہ والا نظارہ میری بے چین آنکھوں نے دیکھا تو ساری تھکن اتر گئی۔ اتنا خوبصورت منظر دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور جھیل کنارے بیٹھ کر سکون کی بے پناہ سانسیں لینے لگا۔ کب میری انکھ لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ تو کچھ نوجوانوں کے شور نے مجھے جگا دیا جو نیچے سے آ رہے تھے۔ میں نے تسلی سے اپنی پسندیدہ جھیل کو دل اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ اتنے میں پنڈی گھیب کے پانچ بندے جیسے میرے پاس پہنچے تو ایک نے اپنا موبائل پکڑاتے ہوئے کہا کہ کچھ تصویریں بنا دو۔ ایک کی تصویریں بنائیں تو اُس نے سب کو بتا دیا کہ یہ تو بڑا اچھا فوٹوگرافر ہے۔

ایک کی دیکھا دیکھی سب نے باری باری مجھ سے اپنی اپنی تصاویر بنوائیں لیکن اُن کا دل پھر بھی نہیں بھرا۔ یار میری تصویر ایسے بنا دو۔۔۔ میری تصویر اِس طرح بنا دو۔ میں جب ایسے بیٹھوں گا تو آپ نے میری ایسے تصویر بنانی ہے۔ میں جس تنہائی اور خاموشی کو انجوائے کرنے آیا تھا اُس کا ستیاناس ہو چکا تھا۔ لہٰذا اِسی میں عافیت جانی کہ یہاں سے رفو چکر ہوا جائے۔ جلدی سے اُن کو اُن کے موبائل واپس کئے اور وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ اوپر میں نے ایک چارپائی پہ اپنا بیگ وغیرہ رکھا تھا۔ جیسے وہ لینے وہاں پہنچا تو ایک Fortuner وہاں کھڑی دیکھی جس میں میاں بیوی اور اُن کی تین بیٹیاں آئی ہوئی تھیں۔ یہاں بھی بڑے مزے کا سین Create ہوا لیکن پھر کبھی بتاؤں گا۔ فی الحال اتنا ہی۔ خوش رہیں۔



اہم نوٹ: مردان ٹائمز اور اسکی پالیسی کا اس بلاگر کی سوچ اور اس کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
اگر آپ بھی مردان ٹائمز کے لئے اُردو میں بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو انتظار کئے بغیر آج ہی قلم اُتھائیے اور 1000 سے 1200 الفاظ پر مشتمل اپنی خود ساختہ تحریر اپنے مکمل نام، تصویر، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر اکاونٹس اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ابھی ای میل کر دیجیے. ہم آپ کے تعاون کے شکرگزار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

اسی طرح مزید خبریں